اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سینئر صحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی اسپیشل جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ مسترد کردی۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ گزشتہ روز چیف جسٹس کے چیمبر میں جمع کرائی گئی۔ رپورٹ میں کینیا اور متحدہ عرب امارات میں کی گئی تحقیقات کی تفصیلات شامل ہیں۔
ٹیم گزشتہ ہفتے کینیا اور متحدہ عرب امارات میں اپنی انکوائری مکمل کرنے کے بعد پاکستان واپس آئی تھی۔
کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے خصوصی جے آئی ٹی کی پیش کردہ رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے صرف ناکامیوں کی کہانی قرار دیا۔
آج کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کینیا نے ارشد شریف قتل کیس میں پاکستان سے تعاون کیوں روکا؟ چیف جسٹس بندیال نے کہا کہ دفتر خارجہ معاملے کی تحقیقات کرے اور ریاست کو بریف کرے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ارشد شریف قتل کیس میں دو اہم پہلو ہیں ایک ملکی اور دوسرا غیر ملکی۔ فاضل جج نے جے آئی ٹی کے سربراہ اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے یہ بھی دریافت کیا کہ کیس کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کس نے لیک کی۔
جے آئی ٹی کے سربراہ نے سپریم کورٹ بنچ کو بتایا کہ کینیا حکام نے ارشد شریف کا آئی فون اور آئی پیڈ ان کے حوالے نہیں کیا اور کہا کہ جے آئی ٹی کو کیس میں کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں ملا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کینیا
حکام نے ارشد شریف قتل کیس میں گرفتار دو پولیس اہلکاروں سے تفتیش مکمل کر لی ہے۔
مزید کارروائی کے لیے رپورٹ پبلک پراسیکیوٹر کو بھجوا دی گئی ہے۔
سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے معاملے میں مدد کے لیے اقوام متحدہ سے رابطہ کرنے کو کہا۔ چیف جسٹس نے دفتر خارجہ کے نمائندے سے سوال کیا کہ اقوام متحدہ سے مدد لینے کے لیے کتنا وقت درکار ہے۔
درست وقت نہیں بتا سکتا کیونکہ معاملہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون کا ہے، ایف او کے نمائندے نے جواب دیا۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے ارشد شریف قتل کیس کی سماعت مارچ کے پہلے ہفتے تک ملتوی کرتے ہوئے دفتر خارجہ کو اقوام متحدہ سے مدد کے لیے وقت کا تعین کرنے کے لیے ایک ماہ کی مہلت دے دی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لیے خصوصی جے آئی ٹی کو کینیا اور یو اے ای کا دورہ کرنے کا حکم دیا تھا۔
سینئر صحافی اور اے آر وائی نیوز کے سابق اینکر کو 23 اکتوبر کو کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں قتل کر دیا گیا تھا جہاں وہ خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔
8 دسمبر کو وفاقی حکومت نے سینئر صحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے ساتھ مل کر نئی خصوصی جے آئی ٹی تشکیل دی۔
نئی جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی، آئی بی، ایف آئی اے اور اسلام آباد پولیس کے ارکان شامل ہیں۔ ارکان میں ڈی آئی جی انٹیلی جنس برانچ ساجد کیانی، ایف آئی اے کے وقار الدین سید، ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر اویس احمد، ملٹری انٹیلی جنس سے مرتضیٰ افضل اور آئی ایس آئی کے محمد اسلم شامل ہیں۔